Sir Syed Ahmed Khan


سرسید احمد خان انیسویں صدی کی وہ عہد آفریں شخصیت تھے جن کی ہمہ گیری کے اثرات بیک وقت ادب ، سیاست ، معاشرت ، تعلیم ، مذہب اور صحافت پر پڑے۔ ان تمام شعبوں پر سرسید کا اثر اور گرفت ایسی بھر پور تھی کہ اس کا جائزہ لینے کے لیے ایک علیحدہ دفتر کی ضرورت یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سرسید کو خدا نے ایک خاص ذہن عطا کیا تھا پھر یہ بھی ان کی خوش نصیبی تھی کہ ان کو ماں کی صورت میں ایک نہایت باوقار اور سمجھدار خاتون کی گود نصیب ہوئی جنہوں نے سرسید کے پوشیدہ جوہر کو پہچان لیا اور ان کی تربیت اس طرح کی کہ سرسید کی شخصیت ماں کی گود کی بھٹی میں تپ کر کندن بن گئی اور ایسی جگمگائی کہ تا ابداس کی جگمگاہٹ قائم رہے گی۔
خصوصاً اردو ادب اور زبان پر ان کے احسانات کے آگے ہماری گردنیں احساس ممنونیت کے ساتھ ہمیشہ خم رہیں گی۔ سرسید سے پہلے اردو ادب میں نثر کا خصوصاً علمی نثر کا وجود ہی نہ تھا۔ ادب کا دائرہ علاوہ شاعری کے مذہب ، تصوف اور تاریخ نگاری تک محدود تھا۔ غالب کی نثر بھی کوئی شعوری کوشش نثر کی اصلاح یا ارتقا کی نہ تھی بلکہ یہ وہ خطوط تھے جو وقتاً فوقتاً انہوں نے اپنے دوستوں کو لکھے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ بے تکلف خطوط کسی بھی انسان کے دلی حقیقی جذبات کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ان میں جان بوجھ کر مینا کاری اور مرصع نگاری نہیں کی جاتی۔ یہ اور بات ہے کہ غالب چونکہ عبقری تھے اس لیے ان کا ہر عمل انفرادیت لیے ہوئے تھا۔ رہ گئی فورٹ ولیم کالج کی نثری تصنیفات تو ان کا دائرہ محض داستانوں تک محدود تھا۔ خواہ وہ باغ و بہار ہو یا آرائش محفل، نشاط خاطر کا ذریعہ تھیں ان کو پڑھ کر انسان خود کو بھول تو جاتا تھا،دیو، پریوں اور بادشاہوں و شاہزادیوں کے مافوق الفطرت عناصر میں کھوکر کچھ دیر کے لیے آلام روزگار سے پیچھا تو چھڑا لیتا تھا مگر کچھ پاتا نہیں تھا۔ صحیح معنوں میں سرسید ہی اردو میں وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اس بات کا اندازہ لگایا کہ نثر کا مقام نظم سے جدا ہے۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے روایت کی تقلید سے 
ہٹ کر آزادی رائے اور آزادی فکر کی بنیاد ڈالی ۔

سرسید جب ۱۸۶۹ء میں انگلستان گئے تو وہاں نہ صرف سرولیم میور کی کتاب کا جواب لکھا بلکہ جدید تعلیمی نظام سے متاثر ہوئے اور اسی طرز پر ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے تعلیم رائج کرنے کا تہیہ کیا۔وہ وہاں کی صحافت سے بھی بڑے متاثر ہوئے خصوصاً وہاں کے دو اخباروں ٹیٹلر اور اسپیکٹیٹر سے بہت کچھ سیکھا جنہیں اسٹیل ایڈسن نکالا کرتے تھے۔ ان اخبارات کے دو بڑے مقاصد تھے۔
۱۔ آرٹ ، لٹریچر ، اخلاقیات اور کردار کا عقلی معیار قائم کرنا۔
۲۔ خوش طبعی کو ذکاوت سے ملانا۔
اسپیکٹیٹر اور ٹیٹلر کا سب سے بڑا مقصد ادب کو سوسائٹی کی اصلاح کا ذریعہ بناناتھا اسٹیل ایڈسن نے ادب کو سوسائٹی کی اصلاح کا ذریعہ بنایا کہ پڑھنے والے مخلوط ہوں ، ان میں غور و فکر کا مادہ پیدا ہوا اور وہ اپنی تہذیبی اصلاح کی طرف بھی مائل ہوں ۔ ساتھ ہی ادب میں طنز و ظرافت کا ایسا عنصر بھی شامل ہو جو پڑھنے والے کو محظوظ بھی کرے اور سبق آموز بھی ہو۔ سرسید نے بھی انگلستان سے واپس آکر اس طرز پر ۲۴دسمبر ۱۸۷۰ء کو تہذیب الاخلاق کا اجرا کیا اور کہا’’ اس پرچے کے اجرا سے میرا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجے کی سویلا ئزیشن یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جائے تا کہ جس حقارت سے سویلا ئزڈ یعنی مہذب قومیں ان کو دیکھتی ہیں وہ رفع ہو جائیں ۔ ‘‘
تہذیب الاخلاق کا اجراء بھی ایک ایسا ولولہ تھا جس کا اصلی مقصد قوم کو اس کی دینی اور دنیاوی ابتر حالت کا جتانا اور سوتوں کو جگانا بلکہ مُردوں کو اٹھانا تھا۔
تہذیب الاخلاق کے اجرا میں سرسید نے بھی وہی مقاصد مد نظر رکھے جو مندرجہ بالاانگریزی اخبارات کے تھے۔ تہذیب الاخلاق نے ہمارے ادب اور انشا ء کا رخ بدل دیا۔ تصنع کی جگہ سادگی نے پالی ۔ عبارت سلیس اور جاندار رکھی جانے لگی اور الفاظ کی میناکاری کے بجائے مضمون و معانی کی ادائیگی کو اولیت دی گئی۔ 

Comments

Popular posts from this blog

My Favourite Book- RObbinson Crusoe

BOSS IS ALWAYS RIGHT

HEALTH IS WEALTH